November 1956 to March 2024! The ST movement of the Pahari Tribe

November 1956 to March 2024! The ST movement of the Pahari Tribe
November 1956 to March 2024! The ST movement of the Pahari Tribe

ADV. ALTAF HUSSAIN JANJUA


نومبر1956تامارچ2024 ! پہاڑی قبیلہ کی ایس ٹی تحریک!

منفرد لسانی، ثقافتی اور نسلی خصوصیت کا حامل ’پہاڑی قبیلہ ‘کی تعمیر وترقی کے حوالے سے پانچ اگست 2019کے بعد کا دورسنہری رہا ہے جس میں ستر کی دہائی میں ہمہ جہت ترقی اور شیڈیول ٹرائب حصول کے لئے منظم طریقہ سے شروع کی گئی جدوجہد نئے چیلنجز، نئی اُمید اور نئی مسائل کے ساتھ منطقی انجام کو پہنچی۔ کوئی بھی تحریک یا جدوجہدفردِ واحدیا چند افراد کے بس کی بات نہیں ہوتی بلکہ اِس کی کامیابی میں اُس سے جڑے ہرچھوٹے وبڑے شخص کی کاو ¿شوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جس طرح ایک گاڑی کو چلنے کے لئے مشینری کے ہرپرزے کا صحیح ہونا اور اچھے سے کام کرنا،گاڑی کو چلنے کے لئے ایندھن کا ہونا، گاڑی کس سمت میں چلانی ہے، اس کے لئے قابل ڈرائیور درکارہوتاہے تبھی گاڑی صحیح سمت اور منزل مقصود پر پہنچتی ہے۔ اگر کسی پُرزے میں خرابی ہوتو گاڑی نہیں چلے گی، گاڑی ہرلحاظ سے ٹھیک ہوتو اُس کو چلنے کے لئے پٹرول/ڈیژل کی بھی ضرورت ہوتی ہے اگر ایندھن بھی ہوتو پھر قابل ڈرائیور درکار ہوتا ہے جو گاڑی کو چلائے بھی اور اس کو منزل مقصود تک پہنچائے بھی۔مختصر یہ کہ پہاڑی طبقہ کی تحریک میں بھی ایسا ہی ہوا ہے جس میں زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والے افراد کا اپنی اپنی بساط اور اپنے وقت میں نمایاں اور قابل ِ ستائش رول رہا جس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ساٹھ اور سترکی دہائی میں اُس وقت کے جموں وکشمیر کے سیاسی حالات میں پہاڑی طبقہ کے مسائل پر اتنی توجہ نہ دی گئی البتہ غیر منظم طریقہ سے لسانی، ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لئے کوششیں جاری رہیں۔اِس کالم میں مختصر طور اس پوری تحریک کے مختلف مراحل کا ذکرکریں گے۔ موٹے طور پر پہاڑی طبقہ کی ادبی، لسانی اور ثقافتی تحریک کو دو حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ 1957تا2018 سال 1947ءکے سانحہ سے قبل غیر منقسم ریاست جموں وکشمیر میں پہاڑی طبقہ کی اپنی الگ پہچان،سیاسی وسماجی ساکھ تھی لیکن تقسیم کے بعد یہ طبقہ بکھر کر رہ گیا اور 1947کے بعد کے حالات میں اپنے منفرد تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے آزمائش اور صبر کے کئی مراحل طے کرنے پڑے۔مولانا سید مسعودی جوکہ نیشنل کانفرنس کے بانی ممبران میں سے تھے اور طویل عرصے تک پارٹی جنرل سیکریٹری بھی رہے، کا شمار اُس وقت پہاڑی طبقہ کے قدآور رہنما میں ہوتا تھا، اُن کی ذاتی کاو ¿شوں سے 17نومبر1956کو اپنائے گئے جموں وکشمیر آئین کے چھٹے شیڈیول میں ’پہاڑی زبان‘کو شامل کیاگیا جوکہ 26جنوری1957سے لاگو ہوا۔مولاناسیدمسعودی صاحب کے فرزند نذیر حسین مسعودی ،نور اللہ قریشی ،حمید اللہ خان جیسی شخصیات کی کاو ¿شوں سے سال 1969کو پہاڑی طبقہ کی سماجی، سیاسی ترقی کے لئے منظم کام شروع ہوا اور ’آل جموں وکشمیر پہاڑی کلچراینڈ ویلفیئرفورم‘کی تشکیل ہوئی جس میں وقت کے ساتھ ساتھ کئی اہم شخصیات جڑتی رہیں اور طبقہ میں اپنے حقوق سے متعلق بیداری لانے کے لئے فورم کا کاررواں آگے بڑھتا رہا۔ سال1973کو کرناہ میں پہاڑی موسیقی اور اسٹیج ڈرامہ کو فروغ دینے کے لئے کلچرل کلب کرناہ کا قیام عمل میں لایاگیا۔زبان وادب کے تئیں پہاڑی طبقہ کوبیدار کرنے اور اِس کی ترقی میں سرزمین کرناہ کے لوگوں کا ناقابل فراموش کردا ہے اور یہیں سے شروع پہاڑی ادبی تحریک وادی کشمیر کے اطراف واکناف کے ساتھ ساتھ خطہ پیر پنجال کے اضلاع راجوری اور پونچھ پہنچی جہاں مقامی سطح پر بھی موسیقی، زبان وادب کو فروغ دینے کے لئے بڑے پیمانے پر آج تک کام ہوا ہے۔ فورم کی کاو ¿شوں سے آہستہ آہستہ طبقہ کی لسانی، ثقافتی اور معاشی ترقی کے لئے حکومتی سطح پر اقدام لئے جانے لگے ۔1978میں جموں وکشمیر کلچرل اکیڈمی میں پہاڑی زبان کی ترویج وترقی کے لئے اعلیحدہ شعبہ قائم کیاگیا۔2اکتوبر1979کو آل انڈیا ریڈیو سرینگر(سابقہ ریڈیو کشمیر سرینگر)سے پہاڑی پروگرام کی شروعات ہوئی۔1989میں پہلی مرتبہ حکومت ِ جموں وکشمیر نے پہاڑی قبیلے کو شیڈیول ٹرائب کا درجہ دینے کے لئے حکومت ِ ہند سے سفارش کی۔اسی سال یعنی مورخہ20اکتوبر1989کو کابینہ فیصلہ نمبر227کی رو سے 26اکتوبر1989کو گورنمنٹ آرڈ نمبر1439-GAD/1989کے تحت جموں وکشمیر پہاڑی مشاورتی بورڈ بنایاگیاجس پر سال 1997کو محمد دین بانڈے کی پہلے وائس چیئرمین کے طور تقرری ہوئی جبکہ اس سے قبل گورنر کے صلاحکار کے پاس اس کا چارج رہا۔ 26دسمبر1993کو گورنر(آر)کے وی کرشناراو ¿ نے مرکزی وزیر برائے سماجی بہبود سے پہاڑی طبقہ کو ایس ٹی دینے کی سفارش کی۔ 1996میں وزیر اعظم ہند ایچ ڈی دیو گوڑہ نے اوڑی میںجلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پہاڑی طبقہ سے ایس ٹی کا وعدہ کیا وہیں1997کو وزیر اعظم آئی کے گجرال نے راجوری میں عوامی جلسے میں اسی بات کو دوہرایا۔ 1999کو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے کرناہ میں جم غفیر عوامی جلسے میں وعدہ کیاکہ پہاڑی طبقہ کو اُن کا جائز حق دیاجائے گا۔ 2001میں جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ نے مرکزی سرکار کو باقاعدہ ایک تفصیلی مکتوب ارسال کیا جس میں پہاڑی قبیلہ کو ایس ٹی دینے کی سفارش کی گئی۔ حکومت ِ ہند نے کچھ وضاحت طلب کی۔مورخہ23جون 2003کو جموں وکشمیر حکومت کے پرنسپل سیکریٹری ایس ایل بھٹ نے رجسٹرار جنرل آف انڈیا(آر جی آئی)کو تفصیلی جواب زیر نمبر261/03/PSSWارسال کیا ۔ اسی سال وزیر اعلیٰ جموں وکشمیر نے دوبارہ سے پہاڑیوں کو ایس ٹی دینے کی سفارش کی۔ سال2004کو جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی نے متفقہ قرار داد پاس کرکے حکومت ِ ہند سے مطالبہ کیاگیا۔سال2005کوزلزلہ متاثرہ اوڑی علاقے کا ریلیف تقسیم کاری کے سلسلہ میںجب اُس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے دورہ کیا، تو پہاڑی طبقہ کے لوگوں نے ریلیف لینے کی بجائے ایس ٹی کا پرزور مطالبہ کیا، جنہیں پھر وزیر اعظم نے بھر پور یقین دہانی کرائی۔ 1997سے2010کے دوران جموں وکشمیر میں پہاڑی طبقہ سے وابستہ طلبا کے لئے 9الگ الگ ہوسٹل بھی کھولے گئے جن میں بچیوں کے لئے راجوری، پونچھ اور کپواڑہ میں گرلز ہوسٹل بھی شامل ہیں، علاوہ ازیں پری وپوسٹ میٹرک اسکالرشپ بھی دیاجارہاہے۔ سال2010کو جسٹس صغیر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں پہاڑی قبیلہ کے ایس ٹی مطالبہ کی پرزور حمایت کی۔ سال2011کو دلیپ پڈگاو ¿نکر کی سربراہی میں جموں وکشمیر کا تفصیلی دورہ کرنے والی سہ رکنی مذاکراتکاروں کی ٹیم نے بھی اس مطالبے کو اپنی رپورٹ کا حصہ بنایا۔ اسی سال انسٹی چیوٹ آف پیس اینڈ کنفلیکٹ اسٹڈیز(IPCS) نے اپنی رپورٹ میں پہاڑی قبیلے کی پسماندگی کا ذکر کیا۔ 15مئی 2012کومرکزی داخلہ سیکریٹری کے ساتھ جموں وکشمیر لاءسیکریٹری کی میٹنگ ہوئی جس میں پہاڑی طبقہ کو ایس ٹی دینے کے لئے سرنوسفارشات طلب کی گئیں ۔ اسی غرض سے سال2023کو پیرزادہ محمد امین بٹ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سال2014کووزیر اعلیٰ جموں وکشمیر نے ایکبار پھر حکومت ہند سے پہاڑی طبقہ کی سفارش کی اوراسی سال مخلوط نیشنل کانفرنس۔ کانگریس حکومت نے فیصلہ کیاکہ جب تلک حکومت ِ ہند پہاڑی طبقہ کو شیڈیول ٹرائب کا درجہ دیتی، جموں وکشمیر میں اِنہیں ریزرویشن دی جائے۔2014میں ہی جموں وکشمیر قانون سازیہ کے دونوں ایوانوں میں پہاڑی طبقہ کو پانچ فیصد ریزرویشن دینے کا بل پاس کیاگیا جس پرگورنر نے بعد ازاں چند اعتراضات لگائے جس میں بڑا عذریہ تھاکہ بیکورڈ کلاس کمیشن کی سفارش نہیں ہے۔ سال2015کو پیر زادہ امین کی سربراہی والی پانچ رکنی کمیٹی نے سماجی واقتصادی اور نسلی خصوصیت جانے کے لئے پہاڑی طبقہ پر سروے کیا اور 112صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی جس کو2017میں کابینہ میں منظوری دیکر سفارش کے ساتھ مرکز کوبھیجا۔ سال2017کو جموں وکشمیر اسٹیٹ بیکورڈ کلاس کمیشن نے پہاڑی طبقہ کو پسماندہ قرار دیتے ہوئے اِس کو ریزرویشن کا حقدار قرار دیا۔ 10فروری2018کو جموں وکشمیرقانون سازیہ میں پہاڑی ریزرویشن ترمیمی بل کو پاس کر کے منظوری کے لئے گورنر کو بھیجاگیا جہاں یہ بل پھر التوا کا شکار ہوکر رہ گیا۔ 2019تا16مارچ2024 جموںوکشمیر میںگورنر رول نافذ تھا۔پہاڑی طبقہ کے پرزور مطالبہ اور مرکزی سرکار کے عمل دخل سے 24جنوری2019کو گورنر ستیہ پال  نے طبقہ کو 4فیصدریزرویشن دینے والے بل کو منظوری دی جوکہ راج بھون میںفروری2018سے التوا میں تھا۔5اگست 2019کوجموں وکشمیر کی تنظیم نو عمل میں لائی گئی جس سے یہاں کا سیاسی وجغرافیائی منظرنامہ ہی یکسر تبدیل ہوگیا۔نئے مسائل،نئے چیلنجز سامنے آئے ۔ایک اہم اور خوش آئندپہلو یہ رہاکہ پانچ اگست کے فیصلے کے بعد حکومت ِ ہند نے جموں وکشمیر کے مختلف طبقہ جات کے مطالبات سے متعلق تمام سابقہ رپورٹوں، مطالبات وغیرہ کو کھنگالا اور ہر ایک کو یکے بعد حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں شروع کیں،اس میں مغربی پاکستانی رفیوجی، والمیکی سماج، گجر بکروال طبقہ کو سیاسی ریزرویشن، جنگلات حقوق، خواتین کو مالکانہ حقوق ، کشمیری پنڈتوں اور پی او جے کے رفیوجیوں کے لئے اسمبلی میں نشستیں مخصوص کرنے، کئی ذاتوں کو او بی سی اور ایس سی میں شمولیت وغیرہ قابل ِ ذکر ہیں۔ ان میں اہم مسئلہ پہاڑی طبقے کا بھی تھا جس پر نئی دہلی میں سنجیدگی سے غوروفکر شروع ہوا۔ 15اگست2019کو لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے اس دیرینہ مطالبے کو پورا کرنے کا عندیہ دیا۔ اِ س حوالے سے نمایاں پیش رفت اُس وقت ہوئی جب 25دسمبر2019کو پہاڑی قبیلے کا نمائندہ وفد وزیر داخلہ امت شاہ سے نئی دہلی میں ملاقی ہوا۔ وزیر داخلہ نے اس تفصیلی ملاقات ، جس میں پہاڑی وفد جس میں سرکردہ سیاسی شخصیات اور سابقہ لیجسلیچرز شامل تھے، کو بغور سنا،پورے مطالبے کو اچھی طرح سے سمجھااور یقین دلایاکہ جلد ایک کمیشن تشکیل دیاجائے گا جوکہ جامع رپورٹ تیار کرے گاجس کی بنا پر اُن کا یہ جائز مطالبہ ہرحال میں پورا کیاجائے گا۔پہاڑی طبقہ کی ستر کی دہائی سے شروع جدوجہد میں یہ ملاقات ایک سنگ ِ میل (U-Turn)تھی جس کے اہتمام میں آل جموں وکشمیر پنچایت کانفرنس چیئرمین شفیق میر کا رول نمایاں رہاتھا۔ اس ملاقات کے بعد وزارت داخلہ نے عملی پیش رفت شروع کر دی اور پہاڑی ایس ٹی مطالبے کے مختلف پہلوو ¿ں پر باریک بینی سے اسٹڈی شروع ہوئی۔ اس ضمن میں سب سے پہلا کام جموں وکشمیر میں پہلے سے منظور پہاڑی بل کے حوالے سے رولز میں ترمیم کرنا تھی۔30جنوری 2020کو لیفٹیننٹ گورنر جی سی مرمو نے جموں وکشمیر ریزرویشن رولز 2005ترامیم کو منظوری دی ۔19مارچ2020کو جسٹس جی ڈی شرما کی سربراہی میں سہ رکنی بیکورڈ کلاس کمیشن تشکیل دیاگیا جس کو یہ اختیار دیاگیا کہ وہ جموں وکشمیر میں تمام ایسے طبقہ جات کی اسٹڈی کر کے رپورٹ پیش کرے جوپسماندہ ہیں اور مختلف زمروں کے تحت ریزرویشن کے حقدار ہوسکتے ہیں۔ 20اپریل2020کو باقاعدہ SO 127/2020جاری کر کے 4فیصد (PSP)کوٹہ کی ریزرویشن نوٹیفائی کی گئی۔25دسمبر2019کی میٹنگ کے بعد حکومت ِ ہند کے مختلف ادارے لگاتار پہاڑی طبقہ کو ایس ٹی دینے کے مطالبہ پر کام کرتے رہے ،پیپرورک مکمل کرنے کے بعد عوامی سطح پر (رائے عامہ)ہموار کرنے کے لئے دوبارہ سے جلسے، جلوس ، ریلیوں اور میٹنگیں منعقد کرانے کافیصلہ ہوا۔اس کے لئے ورک ہوا کہ کون کون چہرے نمایاں رہیں گے اور کس کس کی کیا خدمات لی جاسکتی ہیں۔اگست2021سے میٹنگوں، ریلیوں اور جلسوں کی شروعات ہوئی ،ایک موومنٹ کھڑی ہوئی جس کا عملی مظاہرہ 24اکتوبر2021کو بھگوتی نگر جموں میں منعقدہ وزیر داخلہ امت شاہ کے جلسے میں ہوا جہاں ہزاروں کی تعداد میں پہاڑی طبقہ کے لوگوں نے شرکت کی۔ اُس جلسے میں وزیر داخلہ امت شاہ نے پرجوش انداز میں پہاڑی طبقہ کا چھ مرتبہ نام لیا اور یقین دلایاکہ اُنہیں انصاف ملے گا۔ پلان کے مطابق ’پہاڑی ٹرائب ایس ٹی فورم جموں وکشمیر‘نام سے نیا فورم منظرِ عام پر آیااوراُس کے بینر تلے جموں، راجوری،پونچھ میں میٹنگیں اور ریلیاں شروع ہوئیں، کچھ میٹنگیں کشمیر کے چند علاقوں میں بھی ہوئیں ، البتہ زیادہ توجہ کا مرکز راجوری اور پونچھ رہا ۔پہاڑی طبقہ کا نمائندہ فورم ’آل جموں کشمیر پہاڑی کلچرل اینڈ ویلفیئر فورم‘ کے زعماءکا بھی اپنی سطح پر کام جاری رہا اور اشو کے پیچ وخم کو سمجھنے میں اُن کی خدمات بھی لی گئیں۔ 2022کے بعد اِس موومنٹ نے مزید طول پکڑا۔ سوشل میڈیا، اخبارات، ٹیلی ویژن چینل ہر جگہ پہاڑی طبقہ موضوع ِ بحث بنا۔ وہیں گجر بکروال طبقہ کی طرف سے بھی احتجاج، پریس کانفرنسوں ، اخباری بیانات، مظاہرو ¿ں کا سلسلہ شروع ہوگیا جن کا مطالبہ تھاکہ شیڈیول ٹرائب میں Elite Classکو شامل نہ کیاجائے، اس کے لئے ٹرائبل مارچ اور کینڈل مارچ بھی ہوئے۔اس دوران نئی دہلی میں گجر بکروال اور پہاڑی طبقہ کے وفود کی وقتاًفوقتاً نارتھ اور ساو ¿تھ بلاک میں حکمرانوں سے میٹنگوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ایک سال بعد یعنی4اکتوبر2022کو وزیر داخلہ نے راجوری میں عوامی جلسے سے خطاب کیا۔ یہ تاریخ ساز جلسہ تھا جس میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی جن میں اکثریت پہاڑی طبقہ کے لوگوں کی تھی، جنہوں نے گرمجوشی سے امت شاہ کا استقبال کیا اور اپنا مطالبہ دوہرایا۔ اُس جلسے میں وزیر داخلہ نے ایکبار پھر واضح کیاکہ وہ اپنے وعدے پر قائم ودائم ہیں ایس ٹی درجہ ضرورملے گا۔ دوسرے روز یعنی5اکتوبر2022کو بارہمولہ میں جلسے میں بھی وزیر داخلہ کو پہاڑی طبقہ کی طرف سے پرجوش استقبال کیاگیا۔نئی دہلی واپس جاکر ایس ٹی مطالبہ کو پور ا کرنے کے عمل میں مزید تیزی آئی۔ نومبر2022کے پہلے ہفتی میں ہی رجسٹرارجنرل آف انڈیا(RGI)اور نیشنل کمیشن فار شیڈیول ٹرائب (NCST)نے پہاڑی طبقہ سمیت چار قبائل جن میں پاڈری ٹرائب، گڈا براہمن اور کولی بھی شامل ہیں، کو شیڈیول ٹرائب زمرہ میں شامل کرنے کی منظوری دے دی۔ فروری2023کو قانونی مسودہ تیار کرنے کے لئے مشاورتی عمل شروع ہوااور26جولائی2023کو لوک سبھا میں بل متعارف کیاگیالیکن اس کو منظوری دینے میں تھوڑا وقت لیاگیا۔ یہ دورانیہ بڑا آزمائش اور صبر کن تھا لیکن اس دوران پہاڑی طبقہ کے ہرشخص نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی دہلی کی موجودہ سرکار اور وزیر داخلہ کے وعدے پر مکمل بھروسہ رکھا۔بالآخر6فروری2024کو بل لوک سبھا میں پاس ہوا،9فروری2024کوراجیہ سبھا سے منظوری ملی اور 12فروری2024کو صدرجمہوریہ ہند درپدی مرمو نے اِس بل پر اپنی مہر ثبت کردی۔ ٹھیک اُسی روز سرکاری گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا۔16مارچ2024کو ایس او176/2020کو جاری کیاگیا جس میں پہاڑی ایتھنک گروپ ،پاڈری ٹرائب، گڈا برہمن اور کولی کو اعلیحدہ سے جموں وکشمیر یوٹی سطح پر10فیصد ایس ٹی ریزرویشن کوٹہ دیاگیا۔ اس طویل صبر آزماجدوجہد کے دوران پہاڑی طبقہ کے ہرشخص کا بلواسطہ، بلاواسطہ،سامنے رہ کر، درپردہ، پس پردہ رول رہاہے۔آج ہم جہاں اس کامیابی پر شادماں ہیں وہیں ہمیں مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے ٹھوس حکمت عملی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔لسانی وثقافتی ورثے کی ترقی پر خصوصی توجہ درکار ہے۔کٹاگری کوئی اللہ دین کا چراغ نہیں کہ اِس سے سارے مسائل حل ہوجائیں گے ۔ اِس کا فائیدہ تبھی ممکن ہوسکے گا جب ہمارے پاس ایک وژن ہوگا۔سب سے اہم عصرحاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے معیاری تعلیم اور سخت محنت !۔

٭٭٭٭٭٭٭٭ نوٹ:کالم نگارجموں وکشمیر ہائی کورٹ کے وکیل ہیں۔ ای میل:advaltafjanjua@gmail.com